Ù…Ø+بت پھر Ù…Ø+بت ہے
کبھی دل سے نہیں جاتی

ہزاروں رنگ ہیں اس کے
عجب ڈھنگ ہیں اس کے

کبھی صØ+را کبھی دریا
کبھی جُگنو کبھی آنسو

ہزاروں رُوپ رکھتی ہے
جسم جُھسلا کے جو رکھ دے

کبھی وہ دُھوپ رکھتی ہے
شبِ غم کے اندھیروں میں

دلوں کو آس دیتی ہے
کبھی منزل کنارے پر

پیاسا مار دیتی ہے
اذیت ہی اذیت ہے

مگر یہ بھی Ø+قیقت ہے
Ù…Ø+بت پھر Ù…Ø+بت ہے